کعبۃ اللہ سے چاند اور مریخ پر خاص مقناطیسی شعائيں

No Comments

کعبۃ اللہ سے چاند اور مریخ پر خاص مقناطیسی شعائيں



(نیل آرمسٹرانگ کے حوالے سے مصری ڈاکٹر کا امریکی یو ٹیوب پر انٹرویو)


انٹرنیٹ کی دنیا امریکی یو ٹیوب پر مصر کے قومی ریسرچ سنٹر سے وابسطہ ڈاکٹر عبدالبہسط السیّد نے میمری ٹی وی کو ایک انٹرویو دیا- یہ انٹرویو المجد ٹی وی نے 16 جنوری 2005 کو نشر کیا- یہ مڈیو اسلام دشمن مغربی ویب سائیٹ پلینکس کنسٹینٹ ( ) نے من و عن نشر کی اور اس کا پورا متن انگریزی میں بھی ترجمہ کرکے شایع کیا- اگرچہ انہوں نے کافروں والے روایتی انداز میں اس کا مذاق اڑایا ہے لیکن حق تو آگے بڑھتا ہے، اس کا ترجمہ آپ کے سامنے پیش خدمت ہے:

ڈاکٹر عبدا لباسط السید: مکہ کے زمینی مرکز ہونے کا معاملہ سائنسی طور پر ثابت ہوچکا ہے- وہ اس طرح کہ جب خلابازوں نے خلا کا سفر کیا وہاں سے زمین کی تصویریں لیں، انہوں نے دیکھا کا زمین ایک لٹکے ہوئے سیاہ فٹ بال ( ) کی مانند ہے- خلا باز کہنے لگا، کون ہستی ہے جو اس ک واس طرح معلق کیے ہوئے ہے-

میزبان: کس نے یہ کہا؟
ڈکٹر عبدالباسط: نیل آرمسٹرانگ یہ کہنا چارہا تھا کہ خدائے واحد ہی ہے جبس نے اسے اس طرح معلق کرکے تھاما ہوا ہے کہ وہ گرتی نہیں- انہیں یہاں معلوم ہوا کہ زمین ایک خاص مقام (مکہ) سے تابکاری شعائیں (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) خارج کررہی ہے- بعد ازاں انہوں نے اس بارے میں ویب سائٹ پر 21 دن تک یہ بات لکھے رکھی- بعد میں یہ وہاں سے غائب کردی گئی-

میزبان: انہوں نے اسے کیوں غائب کیا؟
ڈاکٹر عبد الباسط: انہوں نے دانستا کیا (یاد رہے کا نیل آرمسٹرانگ نے خلاء میں اذان کی آواز سن کر اسلام قبول کرلیا تھا لیکن اس خبر کو بھی دبا دیا گیا حالکنکہ نیل آرمسٹرانگ اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے انٹرویو میں یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ ان کے ہاتھ پر 106 آدمی اسلا مقبول کرچکے ہیں- (بحوالہ ڈاکٹر مظہر بقا۔ پی ایچ ڈی – دیوبندوزبور خیال ازابوالامتیاز)-

میزبان: تو کیا یہ کہا جاسکتا کہ یہ خبر واضح طور پر دبا دی گئی؟

ڈاکٹر عبدالاباسط: بالکل واضح طور پر دبادی گئی کونکہ انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ کعبۃ اللہ سے یہ شعائيں خاج ہورہی ہیں- یہ شعائيں بڑی چھوٹی ویولینتھ (۔۔۔۔۔۔۔۔) کی تھی (ایسی شعائين زیادہ طاقتور ہوتی ہیں) دراصل جب انہیں ان تابکاری شعائوں کا علم ہوا تو انہوں نے ان شعائوں کو زوم کرکے قریب ترین مقام سے خارج ہوتے دیکھا- انہیں معلوم ہوا کہ یہ شعائيں مکہ سے بلکہ کعبۃ اللہ سے خارج ہورہی ہیں-

میزبان: اللہ
ڈاکٹر عبدالباسط: انہوں نے دیکھا کہ یہ تابکاری شعائيں لامحدود ہیں- جب وہ مریخ پر پہنچے اور تصویریں لینی شروع کیں تو انہوں نے دیکھا یہی شعائيں مسلسل آگے جارہی تھیں- ان خلابازوں کا کہنا تھا کہ ہمار ےعلم میں جس طرح کی یہ ویولینگتھ موجود ہیں یا جو شارٹ سے شارٹ ویولنگتھ بھی ہم جانت ےہیں، ان سب سے مختلف خصوصیت کی حامل تھیں- یہ لامحدود تھیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ شعائيں زمینی کعبۃ اللہ سے بیت المعور (آسمانی کعبۃ اللہ) تک جاتی ہیں- آپ تصور کریں کہ آپ شمالی مقناطیسی پول ہیں اور میں جنوبی پول- درمیان میں درمیان میں مقناطیسی توازن کا زون (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) ہوگا- اگر یہاں قطب نما رکھا جائے تو اس کی سوئی کسی طرف حرکت نہیں کرے گی-

میزبان: آپ کا مطلب ہے کہ دونوں طرف سے کشش کی طاقت برابر ہوگی؟
ڈاکٹر عبدالباسط: جی ہاں! یہی وجہ ہے کہ اسے زیرو مقناطیسی زون کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں مقناطیسی طاقت کا کوئی اثر نہیں ہوتا- اسی وجہ سے جب کوئی مکہ کی طرف سفر کرتا ہے یا وہاں رہتا ہے ، وہ طویل عمر پاتا ہے، زیادہ صحتمند ہوتا ہے اور اس پر زمین کی کشش ثقل کا کم اثر ہوتا ہے- یہی وجہ ہے کہ جب آپ کعبہ اللہ کا طواف کرتے ہیں تو آپ اپنے اندر ایک توانائی داخل ہوتے ہوئی محسوس کرتے ہیں-

میزبان: سبحان اللہ-
ڈاکٹر اعبدالباسط: یہ بات بھی ایک تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئی ہے کہ مکہ میں پائی جانی والی سیاہ بسالت چٹانیں (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) دنیا کی قدیم ترین چٹانیں ہیں- یا ایک سچائی ہے-

میزبان: کیا انہوں نے مکہ سے بسالت چٹانوں کے نمونے ٹیسٹ کے لیے حاصل کیے؟
ڈاکٹر عبدالباسط: جی انہوں نے مکہ سے بسالت چٹانوں کے ٹکڑے حاصل کیے اور انہوں نے موقع پر بھی ان چٹانوں کا معائنہ کیا- برٹش میوزیم میں کعبۃ اللہ سے حجر اسود کے بھی ٹکڑے ٹیسٹ کے لیے لائے گئے- ماہرین نے ان کا مشاہدا کرنے کے بعد کہا کہ ایسی چٹان ہمارے نظام شمسی میں نہیں پائی جاتی-

سبحان اللہ

زمینی مرکز کعبۃ اللہ اور آسمانی مرکز بیت المعمور کے بارے میں دیگر راویات و احادیث سے شواہد:

اب تک ہماری اوپر کی گئی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مکہ سائنسی، جغرافیائی اور تاریخی طور پر زمین کا مرکز ہے لیکن مصری ڈاکٹر جناب عبدالباسط السیّد کی گفتگو اور نو مسلم خلا باو آرمسٹرانگ کے بیان سے ثابت ہوا کہ کعبہ نا صرف زمینی مرکز ہے بلکہ پوری کائنات کا مرکز ہے کیونکہ اس کی سیدھ میں بالکل اوپر آسمانی کعبہ یعنی بیت المعمور ہے اور یوں یہ پوری کائنات کا مرکز ہیں-

مختلف روایات و احادیث سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بیت المعمور کعبۃ اللہ کی سیدھ میں باکل اوپر ہے-
واقعہ معراج کے بیان کے ضمن میں مالک بن صعصعۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: " مجھے آسمان کی طرف لے جایا گیا- بیت المعمور ہمارے لیے بلند کیا گیا- اچانک ہمیں معلوم ہوا کہ وہ کعبۃ اللہ کی بالکل سیدھ میں ہے- اگر وہ اوندھے منہ گرے تو سیدھا کعبہ پر گرے- ہر روز اس میں 70 ھزار فرشتے آتے ہیں- جب وہ وہاں سے جاتےہیں تو پھر ان کی باری نہیں آتی- یہ باتیں سیدنا علی اور ابن طلحہ رض نے کہیں-" _حدیث نمبر 477، سلسلہ اللصحیحہ علامہ البانی رح)

البانی رح نے محتلف اسناد کے ساتھ ایسی تمام راویات نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ جمیع طرق اے ساتھ یہ روایات ثابت ہیں-
مصنف عبدالرزاق تفسیر الماوردی کے وہ دو روایات بھی اس ضمن میں موجود ہیں-

8873- عبد الرزاق نے معمر سے روایت کیا انہوں نے کہا،" مجھے اس شخص نے بتایا جس نے ابو طفیل کو کہتے سنا، بیت اللہ، اللہ کے عرش ای سیدھ میں ہے- اگر بیت المعمور (معاذ اللہ) گڑ پڑے تو سیدھا اس پر گڑے- اسی کعبہ سے یہ زمین پھیلائی گئی-"
8847- عبدالرزاق نے کریب (تابعی) سے روایت کیا کہ بے شک رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
" آسمان میں جو بیت المعمور ہے اسے ضراح کہا جاتا ہے، وہ بیت الحرام کے بالکل اوپر ہے- اگر وہ گرے تو سیدھا اس کے اوپر گرے- فرشتے اسے آباد کرتے ہیں-"

تفسیر ابن کثیر میں بھی سعدی کے حوالے سے معراج کے سفر کا ذکر کیا گیا اور بتایا گیا کہ نبی پاک ۖ نے مختلف مقامات کی زیارت کی- پھر بتایا گیا۔۔۔۔۔۔" بیت المعمور کی زیارت کی جو خلیل اللہ علیہ السلام اللہ کے زمینی کعبہ کے ٹھیک اوپر آسمان پر ہے- یہی آسمانی کعبہ ہے- خلیل اللہ علیہ السلام اس سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے- اس میں ہر روز 70 ھزار عبادت ربانی کے لیے جاتے ہیں مگر جو آج گئے، پھر ان کی باری قیامت تک نہیں آتی-

Next PostNewer Post Previous PostOlder Post Home

0 comments

Post a Comment