قرآن مجید ایک زندہ معجزہ

No Comments

اللہ رب العزت نے جتنے بھی پیغمبراس سرزمین پر مبعوث فرمائے ان سب کو مختلف معجزات عطاکیے تاکہ عقل وہوش رکھنے والے اُن کی نبوت کی حقانیت و صداقت پر ایمان لے آئیں ،مثلاً حضرت موسیٰ کے دور میں جادو کا بڑا زور تھافرعون کے حکم پر بڑے بڑے جادوگر جب فرعون کے دربار میں جادو کے مقابلے میں شریک ہوئے اور موسیٰ نے ان سب کے جادو کو شکست فاش دے دی تو وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں بلکہ اللہ کی طاقت ہے، چنانچہ وہ بے ساختہ پکار اُٹھے:

(قَالُوْا اٰمَنَّابِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ رَبِّ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ)
'' کہنے لگے ہم رب العالمین پرایمان لے آئے،جو موسٰی اور ہارون کا پروردگارہے ''

اسی طرح حضرت عیسیٰ کے زمانے میں طب کا بڑا زور تھا چنانچہ اسی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ کو وہ معجزات دیے کہ دنیائے طب حیر ان وپریشان ہوکر رہ گئی۔ آپ نے اللہ کریم کے حکم سے لا علاج مریضوں کو شفا یاب کیا 'مردوں کو زندہ کیا'مادر زاد اندھوں اور کوڑھ کے مرض میں مبتلامریضوں کوتندرست کیا ،تاہم یہ حقیقت ہے کہ آج ان میںسے کوئی بھی معجزہ باقی نہیں جس کو آج کا انسان پرکھ سکے۔

یہ معجزات ان انبیاء کرام کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوگئے اور ان کا ذکر ہمیں صرف آسمانی صحائف یا تاریخی کتابوں میں ہی ملتا ہے، اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول حضر ت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید کی صورت میں جو معجزہ عطا کیا تھا وہ 1400 سال گزرجانے کے بعدبھی نہ صرف اپنی اصلی حالت میں موجود ہے بلکہ آج کے جدید سائنسی دور میں بھی اپنا لوہا منوا رہا ہے۔

قرآن مجید جس دور میں نازل ہوا وہ فصاحت و بلاغت اورمنطق و حکمت کا دور تھا چنانچہ جب اسے فصیح وبلیغ ادبیوں ' عالموں اور شاعروں کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ بے ساختہ پکا ر اُٹھے کہ:
'' خدا کی قسم یہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہے ''

قرآن مجید ایسی فصیح وبلیغ زبان میں نازل ہواجس کی نظیر پیش کرنے سے انسان قاصر تھے،قاصر ہیں اور قاصر رہیں گے!مثلاًقرآن مجید نے جب اپنی فصاحت وبلاغت کا دعویٰ کیا تو عربوںنے انتہائی غورفکر کے بعد تین الفاظ پر اعتراض کیا کہ وہ عربی محاورے کے خلاف ہیں۔یہ الفاظ کُبَّار،ہُذُوًااور عُجَابتھے۔معاملہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا۔آپ نے معترضین کے مشورے سے ایک بوڑھے شخص کو منصف بنایا۔

جبب وہ شخص آیا اور بیٹھنے لگا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' ادھر بیٹھ جائیں ''۔وہ اس طرف بیٹھنے لگا تو آپ نے فرمایا :'' اُدھر بیٹھ جائیں''۔جب وہ اُدھر بیٹھنے لگا تو پھر اشارہ کرکے فرمایا :''اِدھر بیٹھ جائیں ''۔اس پر اس شخص کو غصہ آگیا اور اس نے کہا :
(( أَنَا شَیْخ کُبَّار أَتَتَّخِذُنِی ھُذُوًا ھٰذَا شَیئ عُجَاب ))
'' میں نہایت بوڑھا ہوں ۔کیا آپ مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں؟یہ بڑی عجیب بات ہے ''۔
یوں اس نے تینوں الفاظ تین جملوں میں کہہ ڈالے۔اس پر معترضین اپنا سامنہ لے کر رہ گئے۔

ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمایں:
مصری عالم علامہ طنطاوی لکھتے ہیں کہ وہ ایک مجلس میں اپنے جرمن مستشرق دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے ۔مستشرقین نےان سے پوچھا :کیا آپ یہ سمجھتے ہیںکہ قرآن جیسی فصیح وبلیغ عربی میںکبھی کسی نے گفتگو کی ہے نہ کوئی ایسی زبان لکھ سکا ہے ۔علامہ طنطاوی نے کہا :''ہاں میرا ایمان ہے کہ قرآن جیسی فصیح و بلیغ عربی میںکسی نے کبھی گفتگو کی ہے نہ ایسی زبان لکھی ہے''۔انھوں نے مثال مانگی تو علامہ نے ایک جملہ دیا کہ اس کا عربی میں ترجمہ کریں:
''جہنم بہت وسیع ہے ''
جرمن مستشرقین سب عربی کے فاضل تھے ،انہوں نے بہت زور مارا۔جہنم واسعة ،جہنم وسیعة جیسے جملے بنائے مگر بات نہ بنی اورعاجز آگئے تو علامہ طنطاوی نے کہا : ''لو اب سنو قرآن کیا کہتاہے'':
(( یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَھَنَّمَ ھَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّذِیْدٍ))
'' جس دن ہم دوزخ سے کہیں گے : کیا تو بھر گئی ؟ اوروہ کہے گی :کیا کچھ اور بھی ہے ؟''

اس پر جرمن مستشرقین اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوے اور قرآن کے اعجاز بیان پر مارے حیرت کے اپنی چھاتیاں پیٹنے لگے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب اورمشرکین کو قرآن کا مثل لانے کا چیلنج دیا تھا،پھر یہ چیلنج دس سورتوںتک محدود کردیا گیا ،حتٰی کہ صرف ایک ہی سورت کا مثل لانے کا چیلنج دے دیا گیا مگرنزول قرآن کے آغاز سے لے کر چودہ صدیاں گزر گئی ہیں مگر کوئی شخص قرآن مجید کی سی ایک صورت بھی تخلیق نہیں کرسکا جس میںکلام الٰہی کا سا حسن ،بلاغت ،شان،حکیمانہ قوانین ،صحیح معلومات ،سچی پیشگوئیاں اور دیگر کامل خصوصیات ہوں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کی چھوٹی سے چھوٹی سورت ''الکوثر''ہے جس میں فقط دس الفاظ ہیں مگر کوئی اس وقت اس چیلنج کاجواب دے سکا نہ بعد میں۔

بعض کفار عرب جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے ،انہوں نے اس چیلنج کا جواب دینے کی کوشش کی تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہیں(نعوذباللہ)مگر وہ ایسا کرنے میںناکام رہے۔ان میں ایک مسیلمہ کذاب بھی تھا جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری دنوںمیںنبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔اس نے قرآن مجید کی بعض سورتوںکی نقل کرنے کی بھونڈی کوشش کی ،مثلاً:
(( اَلْفِیْلُ، وَمَا الْفِیْلُ ،وَمَا أَدْرٰکَ مَاالْفَیْلُ،لَہُ ذَنَب دَبِیلوَّ خُرْطُوْم طَوِیْل))
'' ہاتھی ہے،اور ہاتھی کیاہے،اور تم کیاسمجھے کہ ہاتھی کیاہے۔اس کی ایک موٹی دم ہے اورلمبی سونڈ ہے''۔

مسیلمہ نے ترنم کی خوش آہنگی میں لاجواب اور حکمت ومعانی سے بھرپور سورة العادیات کی طرز میںبھی فضول طبع آزمائی کی اور ''مینڈکی ''پر چند بے معنی فافیہ دار جملے بھی گھڑے مگر ''چہ نسبت خاک راباعالم پاک !'' وہ سراسر احمقانہ کلام تھا جو اس نام نہاد پیغمبر پر شیطان نے نازل کیاتھا ۔خلافت صدیقی میں مسیلمہ کذاب اپنے جھوٹے کلام اور باطل اعمال کے ساتھ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو کر جہنم کا ایندھن بن گیا ۔

عبداللہ بن مقفّع عربی کا ایک بڑا فصیح وبلیغ ادیب تھا ۔اس نے جب قرآن کا چیلنج پڑھاتو اس کے ہم پلہ کوئی ادبی کاوش پیش کرنے کی سوچی ۔اس نے بہت مغز ماری کی لیکن جب سرراہ ایک بچے کے منہ سے یہ آیت سنی :

(وَقِیْل یٰاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَ کِ وَیٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ)
'' اور کہا گیا : اے زمین !اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان !تھم جا''
تو وہ پکار اٹھا :
''میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ کلام الٰہی ہے اورا س کی نظیر پیش کر نا ممکن ہی نہیں ''

چناچہ یہ کفار کی بدبختی تھی کہ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ اپنی ضد اور مادی فوائد کے لالچ میں اسلام کی دولت سے محروم رہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلمچونکہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی تھے جن کی نبوت قیامت تک قائم رہے گی ' چنانچہ ان کو معجزہ بھی ایسا دیا گیا جو قیامت تک رہے گا اور اس کو نہ صرف آج بلکہ قیامت تک ہر دور میں پرکھا جا سکتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ جوں جوں زمانے نے ترقی کی ہے ویسے ہی قرآن مجید کی حقانیت واضح ہوتی چلی گئی ہے، تمام مفسرین نے اپنے اپنے زمانے کے علم اور ترقی کے اعتبار سے قرآن مجید کو سمجھااور اس کی تفسیر لکھی کیونکہ علم اللہ تعالیٰ کی دین ہے وہ انسان کو جس قدر چاہتاہے کسی چیز کے بارے میں علم عطافرماتا ہے'جیسے کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
( وَلاَیُحِیطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہ اِلَّابِمَا شَآءَ )
'' وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ہا ں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم
کرا دیتاہے )''

سابقہ مفسرین کی تفسیر اور موجودہ جدید سائنس کی تحقیق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاوہ فرمان یا د آجاتاہے جوترمذی اور دارمی میں موجود ہے اور اس کو مولانا منظور نعمانی نے معارف الحدیث میں نقل کیا ہے ۔یہ ایک لمبی حدیث ہے جس کا ایک ٹکڑا میں یہاں نقل کررہاہوں جبکہ بریکٹ میں تشریح مولانا منظور نعمانی ہی کی ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''قرآ ن ہی حبل اللہ المتین یعنی اللہ سے تعلق کا مضبوط وسیلہ ہے اور محکم نصیحت نامہ ہے اور وہی صراط مستقیم ہے ۔وہی وہ حق مبین ہے جس کے اتباع سے خیالات کجی سے محفوظ رہتے ہیںاور زبانیں اس کو گڑبڑ نہیں کرسکتیں(یعنی جس طرح اگلی کتابوں میںزبانوںکی راہ سے تحریف داخل ہوگئی اور محرفین نے کچھ کا کچھ پڑھ کے اس کو محرف کردیا اس طرح قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہو سکے گی ،اللہ تعالیٰ نے تا قیامت اس کے محفوظ رہنے کا انتظام فرمادیاہے )اور علم والے کبھی اس کے علم سے سیر نہیں ہوںگے (یعنی قرآن میں تدبر کا عمل اور حقائق ومعارف کی تلاش کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری رہے گا اور کبھی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ قرآن کا علم حاصل کرنے والے محسوس کریں کہ ہم نے علم قرآن پر پور ا عبور حاصل کر لیاہے اور اب ہمارے حاصل کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں رہا بلکہ قرآن کے طالبین علم کا حال ہمیشہ یہ رہے گا کہ وہ علم قرآن میں جتنے آگے بڑھتے رہیں گے اتنی ہی ان کی طلب ترقی کرتی رہے گی اور ان کااحساس یہ ہوگا کہ جو کچھ ہم نے حاصل کیاہے وہ اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں جو ابھی ہم کو حاصل نہیں ہو ا ہے )اور وہ قرآن کثرت مَزَاوَلَتْ سے کبھی پر انا نہیں ہو گا (یعنی جس طرح دنیا کی دوسری کتابوں کا حال ہے کہ باربار پڑھنے کے بعد ان کے پڑھنے میں آدمی کو لطف نہیں آتا ،قرآن مجید کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے وہ جتنا پڑھا جائے گا اورجتنا اس میں تفکر وتدبر کیا جائے گا اتناہی اس کے لطف ولذت میںاضافہ ہوگا)او را س کے عجائب (یعنی اس کے دقیق ولطیف حقائق ومعارف)کبھی ختم نہیں ہوں گے۔۔

بے شک قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے ،مگر کئی سائنسی حقائق جو اس کی آیا ت میںبعض مقامات پر انتہائی جامع اور کہیںاشارةًبیان کیے گئے ہیںصر ف بیسویں صدی کی ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم کے فروغ کی مدد ہی سے ان کا مفہوم)کسی حد تک( واضح ہو سکا ہے۔ قرا ن حکیم کے نزول کے وقت ان کے اصل معانی متعین کرنا ناممکن تھا'یہ مزید ایک ثبوت ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے۔قرآن حکیم کو بطورایک سائنسی معجزہ 'سمجھنے کے لیے ہمیں نزول ِ قرآن کے وقت کی سائنسی حالت پر نگاہ ڈالنی ہو گی۔

ساتویں صدی عیسوی میں جب قرآن کا نزول ہوا ،عرب معاشرے میں سائنسی معلومات کے حوالے سے بہت سارے توہماتی اور بے بنیاد خیالات رائج تھے۔ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی کہ یہ لوگ کائنات اور قدرت کے اسرار کو پرکھ سکیں لہٰذا عرب اپنے آباؤاجداد سے وراثت میں ملے قصے کہانیوں پر یقین رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر ان کا خیال تھا کہ زمین ہموار ہے اور اس کے دونوں کناروں پر اونچے پہاڑ واقع ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ پہاڑ ایسے ستون ہیں جنھوں نے آسمان کے قبے یا گنبد کو تھا ما ہو ا ہے۔قرآن کے نزول کے ساتھ ہی عرب معاشرے کے ان تما م توہماتی خیالات کا قلع قمع ہو گیا۔

سورة الر عد کی آیت 2میں کہا گیا:
( اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَِیْرَعَمَدٍ تَرَوْنَھَا…)
''اللہ وہی تو ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمان جیسا کہ تم دیکھتے ہو (اتنے)اُونچے بنائے....''
اس آیت نے اس خیال کی نفی کر دی کہ آسمان پہاڑوں کی وجہ سے بلند ی پر قائم ہیں۔ قرآن اس وقت نازل ہوا جب لوگ فلکیا ت (Astronomy)طبیعیات (Physics)یا حیاتیات (Biology)کے متعلق بہت کم جانتے تھے۔ یہ وہ مضامین ہیں جن سے کائنات کی تخلیق ،انسان کی تخلیق،فضا کی ساخت ،زمین پر زندگی کو ممکن بنانے والے نازک تناسب جیسے موضوعات کے بارے میںبنیادی معلومات ملتی ہیں۔

انسان کے لیے کائنات اورزندگی کی تخلیق کے بارے میں صحیح معلومات کا واحد ذریعہ ''مذہب '' ہے تاہم جب ہم مذہب کا لفظاستعمال کرتے ہیںاس وقت ہمارااشارہ قرآن مجید کی طرف ہوتا ہے جو صحیح ترین ماخذِ علم ِکائنات وانسان ہے۔دیگر مذاہب کی آسمانی کتب اب وہ حیثیت نہیں رکھتیں جو انہیں اپنے زمانۂ نزول میں حاصل تھیں۔ کیونکہ ان میں تحریف کردی گئی ہے۔اور اس بات کی بھی خبر اللہ تعالیٰ نے اپنے ''فرقان حمید ''میں دے دی ہے جس کی تصدیق آج سائنس نے بھی کردی ہے کیونکہ بائبل جو توریت اور انجیل کا مجموعہ ہے' میں بیان کی گئی کئی باتیں سائنس کی رُوسے غلط ثابت ہوچکی ہیں۔ اس لیے یہ بات بھی قرآن مجید کی حقانیت پر دلالت کرتی ہے۔

انجیل وتوریت کے برعکس قرآن مجید یقینی طورپر کلام اللہ ہے اور ہر قسم کے تضاد سے بالکل منزہ و مبّرا ہے۔اللہ نے یہ کتاب خالصتاًاپنے بندوں کی ہدایت کے لیے اتاری ہے اور رہتی دنیا تک اس کی حفاظت کی ذمہ دار بھی خود اسی کی ذات ہے۔ چناچہ
سورةالحجرمیں ارشادہوتاہے
(اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنِّا لَہ لَحٰفِظُوْن)
''یہ ذکر(یعنی قرآن مجید) ہم نے اتارا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں''۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قرآن اس کی آخری وحی ہے'اس لیے اس کی حفاظت کا اس نے خود ذمہ لیا ہے لہٰذا سائنس کی تیز رفتار اور انسانیت کے لیے منفعت بخش ترقی اسی وقت ممکن ہے جب وہ قرآن سے رہنمائی حاصل کرے اورخالق ِکائنات کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن رہے۔ اگر اس راستے کی الٹی سمت پر چلنے کی کوشش کی گئی تو سائنس دان وقت اوروسائل دونوں کو برباد کرنے کے مرتکب ہو ں گے۔

جس طرح دنیا کے دوسرے شعبوں میں ترقی وبہتری کے لیے ہم ایک صحیح سمت میں آگے بڑھتے اور منصوبے بناتے ہیںاور ان کے بارے میں بھی ہمیں قرآن سے رہنمائی ملتی ہے ویسے ہی سائنس کے شعبے کے لیے بھی صحیح راہ وہی ہے جسے رب العالمین اور احکم الحاکمین نے صحیح کہا ہے۔ اور قرآن مجید میں اس سمت کا تعین کر دیاگیا ہے جیسا کہ سورة بنی اسرائیل میں فرمایاگیا ہے:
(اِنَّّ ہٰذَا الْقُرْآنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ)
''حقیقت یہ ہے کہ قرآ ن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سید ھی ہے ''۔
امید ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعدعوام الناس کو ا س حقیقت کا ادراک ہو جائے گا کہ قرآن مجید واقعتا اللہ تعالیٰ کا ہی کلام ہے، یہ کسی انسان کی بات نہیں تھی کہ وہ کائنات کے اُن اسرارو رموز کو 1400سال پہلے ٹھیک ٹھیک ویسے ہی بیان کر دے جیسے جدید سائنس نے اس کے نزول کے بعد دریافت کیے ہیں۔ قرآن مجید کا یہ اعجاز باورکراتا ہے کہ یہ ہرزمانے کے لیے مشعل راہ ہے۔

Next PostNewer Post Previous PostOlder Post Home

0 comments

Post a Comment